جمشید احمد خان۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک نازک موڑ سے گزر رہا ہے،لیکن دراصل یہ نازک موڑ نہیں بلکہ موت کا کنواں ہے جس میں پاکستان کبھی دائیں سے بائیں ، کبھی بائیں سے دائیں ،کبھی اوپر سے نیجے تو کبھی نیچے سے اوپر لامحالہ کھیچوے کی چال کی مانند بھاگ دوڑ کر رہا ہے لیکن موت کے اس کنوے سے نکلنے کے نہ تو کوئی آثار نظر آرہے ہیں اورنہ ہی کوئی تدبیرطاقت کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے بھیڑیوں کے عقل سلیم کے دروازوں کو غلامی سے آزاد کرنے کی دستک دینے کی تکلف کرنے کا ارادہ رکھتی ہے.
پاکستان کی معیشت اس وقت اپنی 75سالہ تاریخ کی بد ترین دور سے گزر رہی ہے، گزشتہ برس اپریل میں جب پاکستان کی 13 جماعتی اتحاد پی ڈی ایم اور اس کے ہینڈلرز نے عمران خان کی حکومت کو ختم کیا تو پی ڈی ایم نے عمرانی حکومت کے خاتمے کو پاکستان کی خوش قسمتی قراردیا، صرف یہی نہیں بلکہ یہ صاحبان دعوے کرتے رہے کہ پاکستان کو راہ راست پر لانے کی اکلوتی گیدڑ سنگھی انہیں کے پاس ہوا کرتی ہے، ان کے اس تماشے کو تقویت کارپوریٹ میڈیا گروپس میں ناکہ زن صحافت کے لبادے میں قلم فروشی کا دھندہ کرنے والے جوکروں نے دی، جو آئے روز ٹی وی کے سکرینوں سے لے کر اخبارات کے صفحات تک اس نوکری پر لگائے گئے تھے کہ عمرانی حکومت کی کارکردگی کو من گھڑت تاویلوں سے اس قدر پلیت کریں کہ ان کا ہر سفید جھوٹ بھی سچ لگنے لگے۔
بحرحال لمبی چوڑی بات کرنے کی بجائے یہی کہنا کافی ہے کہ پی ڈی ایم کی تمام جماعتوں اورکارپوریٹ میڈیا کے قلم فروش دانشوروں نے بلڈی سویلین کا اصول دریافت کرنے والوں کی مکمل اشیرباد کے ساتھ حکومتی تبدیلی یقینی بنائی۔
جھوٹ اس قدر پھیلایا گیا تھا کہ لگ یہی رہا تھا کہ یہ پاکستان کی بدمعاش اشرافیہ ملک کر اب پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی معاشی قوت بنا دے گی۔
لیکن جھوٹ کا غبارہ تھا جو کہ پھلایا گیا تھا کہ وہ ملک جس کا جی ڈی پی 6 فیصد تک آگے بڑھ رہا تھا، جس کی برآمدات میں اضافے کی شرح حیران کن طور پر تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی، جس کے زر مبادلہ کے ذخائر 19 ارب کے قریب تھے، جس کے ریمٹینسس کی شرح پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ ہو چکی تھی، آئی ٹی شعبے میں پیسے کمانے کی شرح میں 75 فیصد تک اضافہ ہوچکا تھا، یہی بہتری زراعت کے شعبے میں بھی تھِی، لیکن جھوٹ اس قدر منظم طریقے سے بولا جا تا رہا ہے کہ مذکورہ بالا اعداد و شمار پیچھے رہ گئے اورمافیا کی تاویلیں پر کشش دکھائی دینے لگیں، اسی تسلسل میں یاد آیا کہ موجودہ حکومت کی سلیکشن کے بعد ایک شخص ٹی وی پر نمودار ہوا تھا جس نے کہا تھا کہ نئی حکومت کے حلف لینے کے ساتھ ہی ڈالر کا ریٹ بھی نیچے آیا تھا اور سٹاک مارکیٹ بھی اوپر گئی تھی، لیکن اس بیان کے بعد اس کے چراغوں میں روشنی نہ رہی، باقی قارئین خود سمجھدار ہیں۔
مفتاح اسماعیل کہتا تھا کہ ان کی حکومت آتے ہی وہ بجلی کی قیمتیں کم کریں گے، لیکن حکومت میں آتے ہی ان کی گنگا الٹی بہنے لگ گئِ، بجلی مہنگی سے مہنگی ترین کر دی گئی جبکہ دیگر معاملات میں ڈگمگانے لگ گئے، بھر حال جلد ہی ہینڈلرز کی بھی کانپیں ٹانگنی شروع ہوگئِ اور انہیں لگا کا پاکستان کی بدترین معیشت کو معاشی ارسو اعظم اسحاق ڈار ٹھیک کرنے کی صلاحیت رکھتےہیں، سو لہِذا جس جہاز میں ڈار ملک سے فرار ہو کر گیا تھا وہی جہاز اس کو معاشی مسیحا کے طور پر عزت و اکرام کے ساتھ واپس لے آیا، اس دوران قلم فروشوں کے قبیلے کے کچھ بد نیت دانشوروں نے خوب شادیانے بجائے کہ ڈار آیا ہے تو ڈالر نیچے آئے گا اور پاکستان کی معیشت پوری دنیا کی معشیت کو پیچھے چھوڑ دے گی۔
بحر حال اب حقائق کچھ یوں ہیں کہ 19 ارب ڈالر کے ذخائر تین ارب سے بھی کم کی سطح پر آچکے ہیں، برآمدات کا پھٹہ بیٹھ چکا ہے اور ملک میں ہر طرف معاشی ڈفالٹ کی فضائیں گنگنا رہی ہیں جس پر حکومتی اور مقتدر حلقے محو سیاسی رقص ہیں۔
