باجوہ اور فرانس کا کلیسا

جمشید احمد خان۔
باجوہ کانام پاکستان فوج کے عوامی سطح بدنام ترین سپاہ سالاروں میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، فوج سے ریٹائرڈ ہونے سے پہلے ایک خطاب میں باجوہ نے کہا تھا کہ جلد ہی وہ گمنامی کی زندگی میں چلے جائیں گے، لیکن صاحب بہادر یہ بھول چکے تھے اب وہ زمانہ نہیں، اب آپ چاہتے ہوئے بھی گمنامی کی زندگی نہیں گزار سکیں گے، اور ایسا ہی ہو رہا ہے۔
باجوہ ریٹائرمنٹ کے بعد پہلی بار یو اے ای میں اُس وقت نمودار ہوئے جب ٹریف سگنل پر گرین سگنل کا انتظار کرتے ہوئے کسی نے اُس کی تصویر سوشل میڈیا پر ڈال دی، اس تصویر پر سوشل میڈیا میں بے تحاشہ میم بنائیں گئیں، کچھ ہی دنوں بعد کسی نے ائیر پورٹ پر باجوہ کی دیڈیو بنائی اور وہ سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی، پھر کسی نے ایک ریسٹورنٹ میں اس کی تصویر بنائی اور سوشل میڈیا پر لگادی۔ باجوہ کی گمنامی کی خواہش بدنامی کی شہرت میں زور پکڑتی جارہی ہے۔
حال ہی میں باجوہ اپنی فیملی کے ہمراہ یورپ کے تفریحی دورے آئے، فرانس میں اس کا سامنا ایک افغان باشندے سے ہوافغانتان کے لوگ پاکستان کی فوج اور پاکستان کی خفیہ ایجنسی کو افغانستان کی بربادی کا ذمہ دار سمجھتی ہیں، افغانیوں کا بارے میں موقف بالک ہی دو ٹوک ہے، حالنکہ ان کا موقف پوری طرح قابل قبول ہر گز بھی نہیں ہے لیکن بہت حد تک ان کا موقفت درست بھی ہے جس کی دلیل گزشتہ چند عشروں کی سیاہ تاریخ بذاتِ خودہے۔ بحر حال مذکورہ افغان باشندے نے باجوہ ایک کلیسا کے سامنے بیٹھا پاکر اُسے آڑے ہاتھوں لیا، باجوہ کو کھر کھری سُنائیں، بلکہ اس شخص نے باجوہ کے ساتھ انتہائی غیر اخلاقی کے مظاہرہ کیا، بہت ہی نازیبا الفاظ کا ستعمال کیا، گالم کلوچ کی، یہ شخص چونکہ پشتو میں گالم گلوچ کر رہا تھا اس لیے سوائے پختونوں کے شاید ہی کسی کو سمجھ آئی ہوگی۔ یہ شخص پختون تھا لہٰذا ایک پختون ہونے ناطے اُس کو باجوہ کی بیوی کے سامنے غیر اخلاقی الفاظ سے اجتناب کرنا چاہیے تھا کیونکہ اخلاقیات کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے بھی آپ کسی کے سامنے اپنا احتجاج یا غصہ ریکارڈ کراسکتے ہیں۔ باجوہ کے ساتھ رونما ہونے والے حالیہ واقعے پر سوشل میڈٖیا میں پاکستانی عوام کی غالب اکثریت خوش دکھائی دے رہی ہے، اس پر میمز بنائی جارہی ہیں، باجوہ کی سوشل میڈایائی دُھلائی کی جا رہی ہے، لوگ باجوہ کی فیلمی کو بھی نہیں بخش رہے حالانکہ میرے خیال میں جہاں بدتمیزی کرنے والے افغان باشندے کو باجوہ کی بیوی کے سامنے الفاظ کے چُناؤ میں احتیاط کرنا چاہیے تھا وہاں سوشل میڈیا پر بھی باجوے کی فیملی کو نشانہ نہیں بنانا چاہیے۔
مجھے یقین بہت سارے لوگوں کو میرے اس موقف سے اختلاف اس لیے بھی ہوگا کہ وہ سمجھیں گے کہ پاکستان کے ادارے کب کسی شہری کے حقوق یا عزت کی روادری کا خیال رکھتے ہیں کہ لوگ ان کے ساتھ عزت سے پیش آئیں، تو ان کے لیے میرا یہی جواب ہے کہ وہ ادارے جو کرتے ہیں وہ بھی ہر لحاظ سے ناجائز اور ناقابلِ قبول ہے۔اس بات میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کی موجودہ ساسی صورتحال انتہائی بھیانک ہے، پاکستان کے چند ریاستی ادارے ایک سیاسی جماعت کے لوگوں سے انتہائی درندگی کے ساتھ پیش آ رہے ہیں، یہ نہ کسی کی جان کو خاطر میں لا رہے ہیں اور نہ ہی کسی کی عزت و آبرو کی پرواہ کر رہے ہیں، ان کے سامنے کسی کی چادر اور چاردیواری کا تقدس کوئی معنی نہیں رکھتا، کوئی بھی ان کی شر سے محفوظ نہیں رہا ہے اور یہ عمل ہر سطح پر شرمناک ہے۔
بحر حال بات ہو رہی تھی باجوے اور کلیسے کی، باجوہ کے ساتھ افغان باشندے کی بدتمیزی کے دوران حیران کُن چیزی ہوئیں، سب سے حیران کُن چیز یہ تھی کہ باجوہ نے بدتمیزی کرنے والے شخص سے کہا کہ وہ یعنی باجوہ اب آرمی چیف نہیں ہے، باجوہ کے پاس اپنی دفاع کرنے کا اس کے سوا اور کوئی راستہ نہیں تھا، اپنی سابقہ پہچان سے فرار ہی اس کا واحد رستہ تھا جو اُس نے اختیار کیا۔ لیکن اس بات پر بھی افغان باشندے کی بد تمیزی جاری رہی، بلکہ اس کی بد تمیزی حد سے تجاوز کرنے لگی، موبائل سے ویڈیو بنانے پر باجوہ نے اُس شخص کو دھمکی دی کہ اگر وہ وڈیو بنانا بند نہیں کرتا تو پولیس کو بُلا لے گا۔دوسری جانب گال، گلوچ کرنے والے شخص نے کہا کہ اگر یہاں پولیس نا ہوتی تو اُس نے باجوہ پر تشدد کردینی تھی۔ دونوں اشخاص کو فرانس کی پولیس پر پر اعتماد تھا، باجوے نے خود کو پولیس کے ہوتے ہوئے افغانی شخص کی شر سے محفوظ پایا، جبکہ افغانی شخص نے پولیس کی خوف سے قانون کو ہاتھ میں لینے سے گُریز کیا۔ اس کو کہتے ہیں جمہوریت اور قانون کی حکمرانی، پولیس کو سامنے پا کر جہاں ایک شخص خود محفوظ تصور کرتا ہے وہاں بیک وقت دوسرا شخص پولیس کے خوف سے تشدد کا راستہ ترک کرنے کو فوقیت دیتا ہے۔
باجوہ جب آرمی چیف تھا تو پاکستان کے قانون، پاکستان کے دیگر اداروں، یہاں تک پارلیمنٹ کو بھی اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا تھا، وہ جہاں پہلا قدم رکھتا قانون وہی سے شروع ہوتا تھا اور جہاں دوسرا قدم رکھتا قانون وہی پر ختم ہوجاتا۔ لیکن ریٹائرمنٹ کے بعد جن جن ممالک میں جا رہا ہے وہاں کے قوانین کے سامنے سر خمِ تسلیم کرتا ہے کہ اگر ایسا نہیں کرے گا تو وہاں کا قانون اُس کے اپنی تمام تر قوت کے ساتھ پکڑ لے گا۔ کاش یہ صاحب اور اس جیسے اس کے دوسرے بھائی حضرات بھی اپنی ملک میں قانون کا احترام کرتے، آئین کی پاسداری کرتے، ہر ادارے کی عزت کرتے، پارلیمان کے سامنے جواب دہ ہوتے تو نہ صرف یہ کہ ان کی عزت میں اضافہ ہوتا بلکہ ملک بھی ترقی کرتا نا کہ تیسری دُنیا کے ممالک میں بھی سب سے نچلی سطح پر رہتے ہوئے بے شرمی اور بے چارگی کے ساتھ رہتا۔

Read Previous

پاکستانی کی سیاسی جماعتیں فوجی عدالتوں کی آلہ کار ؟

Read Next

ن لیگ کو پتہ لگ گیا ہے کہ اس سے بندے اکٹھے نہیں ہونے،منصورعلی خان

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Most Popular