اے وسیم خٹک۔
یہ 2012کا کوئی ایک دن تھا جب مجھے جمشید احمد خان کی کال موصول ہوئی کہ میرے ذہن میں ایک خیال ہے کہ کیوں نا ایک ویب سائیٹ بنائی جائے جو پشاوراور افغانستان کے حالات کو کور کریں ۔ اس وقت ویب سائیٹ کا ہونا اور پھر کامیاب کرانا ایک مشکل امر تھا۔ مگر چونکہ پشاور خبروں کے حوالے سے بہت زرخیز خطہ ہے اس لئے خبروں اور تجزئیوں کے لحاظ سے یہاں کمی نہیں تھی ۔اس لئے جمشید احمد خان کو کہہ دیا کہ ایک میٹنگ کرتے ہیں سب ڈسکس ہوجائے گا۔ اور پھر بہت سے خیالات اُمڈ آئے ۔ جمشید احمد خان اور میرے ذہن میں جو کچھ بھی تھا وہ صفحہ قرطاس کی زینت بن گیا۔ پھر پشاور نیوز کے نام سے ویب سائیٹ لانچ کی گئی ۔جس میں عقیل یوسفزئی صاحب اور پھر شوکت خٹک کا ساتھ بھی رہا۔
اس دوران سجاد علی صاحب بھی ساتھ رہے تھے جو اس وقت دو بہترین ویب سائیٹ چلا رہے ہیں جو کہ ہمارے بعد نئے ویب سائیٹ کے ساتھ میدان میں موجود رہے۔اور اگر کہا جائے کہ سجاد علی ویب پشاور کے ویب سائیٹ چلانے والوں میں ایک نام ہے تو یہ بے جا نہیں ہوگا ۔ کیونکہ پشاور نیوز کے اجرا کے دنوں سے اب تک وہ ویب سائیٹ پر کام کر رہا ہے ۔ پشاور نیوز پشاور سے ڈیجیٹل دنیا میں پہلا نام تھا۔ جس کے وٹس اپ گروپ میں روز سینکڑوں خبریں شئیر ہوتی تھیں ۔ پشاور نیوز کی خبروں کو پشاور کے بڑے ادارے اپنے اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ویب سائیٹ اپنے سائیٹ پر لگاتے تھے۔
پشاور سے بہترین رائیٹرز اور شعبہ صحافت کے طالب علموں کے لئے یہ ایک بہترین پلیٹ فارم رہا جہاں وہ بلاگ لکھا کرتے تھے۔ پشاور نیوز نے پشاور میں پی ٹی آئی کے حوالے سے سروے کیا تھا کہ 2013میں پشاور میں پی ٹی آئی کی حکومت ہوگی ۔اور وہ بات سو فی صد درست ثابت ہوئی ۔ پھر ملالہ یوسفزئی پر قاتلانہ حملہ ہوا جس پر پشاور نیوز نے انٹرویوز کئے ملالہ کے ساتھ زخمی ہونے والی دیگر لڑکیوں کو انٹرویو کرنے کا اعزاز پشاور نیوز ٹیم کو حاصل رہا۔ گلالئی اسماعیل جس وقت اویر گرل نامی این جی او چلاتی تھی اُس کا انٹرویو پشاور نیوز ٹیم نے کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ روزانہ پشاور کے حوالے سے تجزئیے شامل ہوتے تھے ۔ پھر کچھ مجبوریوں کے تحت پشاور نیوز بند ہوگیا جس ڈیجیٹل نیوز کی شروعات پشاور نیوز نے کی تھی اٌس میں مزید دوست شامل ہوئے جنہوں نے ا چھا کام کیا۔کچھ بند ہوگئے اور کچھ ابھی تک کام کر رہے ہیں ۔
اب 2022میں صحافت مکمل طور پر تبدیل ہوچکی ہے ۔ جس صحافت کا ہم 2012میں ذکر کر رہے تھے وہ وقت اچکا ہے۔ صحافت اب مکمل طور پر موبائیل فونز تک محدود ہوگئی ہے ۔ یوٹیوبرز اب لاکھوں کمارہے ہیں ۔فیس بک پیجز پر اتنا زیادہ خبریں شئیر کی جاتی ہیں کہ اخبار کی ضرورت ہی باقی نہیں رہی ۔اب سیاست ہر جگہ پہنچ گئی ہے ہر ادارے میں سیاست آگئی ہے ۔اور اس کے بغیر کام ہی نہیں ہوتا. سیاست کی نئی قسمیں میدان میں آئی ہیں ۔صحافت میں نئی جہتیں آگئی ہیں ۔جمشید احمد خان سے کبھی کبھار ذکر ہوتا رہتا کہ کیوں نا پھر سے پشاور سے نیوز ویب سائیٹ کا اجرا کیا جائے۔ جو اس دفعہ پشاور تک محدود نہ ہو ۔ کیونکہ جمشید احمد خان نے بھی اپنے فیلڈ میں مزید ملکہ حاصل کرلیا ہے ۔ وہ ڈاکومینٹری بنانے میں ایک کمال رکھتے ہیں ۔بین الاقوامی سطح پر اس کی ڈاکومینٹریز کو پزیرائی حاصل ہوئی ہے میری بھی صحافت اور دیگر موضوعات پر کئی کتابیں شائع ہوئی ہیں ۔اس وقت دیگر اداروں کے لئے لکھ رہے ہیں تو سوچا کیوں نا پھر سے نئی صحافت کی ایک دفعہ پھر ابتدا کی جائے جو نئی سیاست کے نام سے ہو جس میں سب کچھ ہو۔ اس پر کام مکمل ہوچکا ہے ۔ ویب سائیٹ تیاری کے آخری مراحل میں ہے ۔ فیس بک پیج پر کام جاری ہے ۔وٹس اپ گروپ پشاور نیوز سے تبدیل کرکے نئی سیاست رکھ دیا جائے گااس دفعہ زیادہ تر ویڈیوز پر فوکس کیا جائے گا۔ جو کہ نئے دور کی آواز ہے ۔ باقی تجزیات کو بھی موقع دیا جائے گا۔ ہر تین مہینے کے بعد تمام تجزئیات کو کتابی شکل دی جائے گی اور ساتھ میں یوٹیوب چینل پر بھی نئی سیاست کی جائے گی۔ لہذا اب زیادہ انتظار کی ضرورت نہیں تو ہمارے ساتھ جڑے رہیئے گا ۔
