امریکی صدر نے تصدیق کی ہے کہ افغانستان میں ایک امریکی ڈرون حملے میں القاعدہ کے سربراہ ایمن الظواہری ہلاک ہو گئے ہیں۔ اُنھیں سی آئی اے نے افغانستان کے دارالحکومت کابل میں ایک ڈرون حملے میں نشانہ بنایا۔
صدر جو بائیڈن نے ایک مختصر خطاب میں بتایا کہ ایمن الظواہری گیارہ ستمبر کے حملوں کی منصوبہ بندی میں بھی شامل تھے اور وہ اسامہ بن لادن کے جانشین تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ کئی دہائیوں تک امریکیوں کے خلاف ہونے والی کارروائیوں میں ملوث تھے۔
صدر بائیڈن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ’ہم یہ واضح کرنا چاہتے ہیں کہ کچھ فرق نہیں کتنا بھی وقت لگے، آپ جہاں بھی چھپے ہوں، اگر آپ ہمارے لوگوں کے لیے خطرہ ہیں تو آپ جہاں بھی ہوں گے امریکہ آپ کا پتا چلائے گا اور آپ کو وہاں سے نکالے گا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ایمن الظواہری کس جگہ پر موجود ہیں اس بارے میں پتا لگایا گیا اور میں نے اس آپریشن کی اجازت دی۔
انھوں نے تصدیق کی کہ یہ آپریشن کابل میں ہوا تاہم ان کا دعویٰ تھا کہ اس کارروائی میں نہ کوئی سویلین ہلاکت ہوئی اور نہ ہی ایمن الظواہری کے خاندان کا کوئی فرد مارا گیا۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایمن الظواہری کو جب ڈرون حملے میں نشانہ بنایا گیا تو وہ کابل میں اپنے گھر کی بالکونی میں کھڑے تھے۔ حکام کا کہنا ہے کہ ان کے اہلِ خانہ اسی گھر میں موجود تھے تاہم وہ حملے میں محفوظ رہے۔
ایمن الظواہری کی مبینہ رہائش گاہ
کابل کا وہ مکان جس میں ایمن الظواہری کو ڈرون سے داغے گئے میزائل سے نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا جا رہا ہے
خیال رہے کہ اسامہ بن لادن کی سنہ 2011 میں ہلاکت کے بعد ایمن الظواہری نے القاعدہ کی قیادت سنبھالی تھی۔
دوسری جانب افغانستان میں طالبان ترجمان نے بھی کہا ہے کہ اتوار کو کابل کے رہائشی علاقے شیر پور میں امریکہ نے ڈرون حملہ کیا۔
اپنی ٹویٹ میں ذبیح اللہ مجاہد نے بتایا کہ ابتدا میں اس واقعے کی نوعیت معلوم نہیں تھی، پھر سکیورٹی اور انٹیلیجنس ایجنسیز کی تحقیقات سے پتا چلا کہ یہ ڈرون حملہ تھا۔
انھوں نے اپنے بیان میں اسے بین الاقوامی اصولوں اور دوحہ معاہدے کی ’واضح خلاف ورزی‘ قرار دیا ہے۔
طالبان کے ترجمان نے اسے گذشتہ 20 سال کے ناکام تجربات کو دوہرانے کے مترادف قرار دیا اور کہا کہ اس قسم کے اقدامات امریکہ، افغانستان اور خطے کے مفادات کے خلاف ہیں۔
ایمن الظواہری کون تھے؟
ایمن الظواہری 19 جون 1951 کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹروں اور علما کے ایک قابلِ احترام گھرانے کا حصہ تھے۔
ان کے دادا رابعہ الظواہری مشرقِ وسطیٰ کے سنی تعلیمات کے مرکز ’الازہر‘ کے امام تھے۔ اس عرصے میں ان کے ایک چچا عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے۔
ایمن الظواہری سکول کے زمانے سے ہی مذہبی سیاست میں شامل ہو گئے۔ انھیں 15 برس کی عمر میں مصر کی کالعدم قرار دی جانے والی قدیم ترین اور بڑی اسلامی تنظیم الاخوانِ المسلمون کا رکن بننے کے وجہ سے گرفتار کیا گیا۔
قاہرہ میں طب کی تعلیم کے حصول کے دوران بھی ان کی سیاسی سرگرمیاں نہیں رکیں۔ انھوں نے 1974 میں گریجویشن کیا اور چار سال بعد سرجری میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔
ایمن الظواہری کے والد محمد ادویات سازی کے پروفیسر تھے۔ وہ 1995 میں انتقال کر گئے۔
ایمن الظواہری پیشے کے لحاظ سے آنکھوں کے سرجن تھے اور انھوں نے مصر میں عسکریت پسند گروہ اسلامک جہاد کی بنیاد رکھنے میں مدد کی۔
انھیں القاعدہ کے سابق سربراہ اسامہ بن لادن کا نائب اور القاعدہ تنظیم کا مرکزی منصوبہ ساز سمجھا جاتا تھا۔ بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکہ میں نائن الیون کے دہشت گرد حملے انہی کے منصوبے کے تحت کیے گئے۔
الظواہری امریکہ کی جانب سے دنیا کے مطلوب ترین افراد کی فہرست میں اسامہ کے بعد دوسرے نمبر پر تھے۔ ان کے سر کی قیمت ڈھائی کروڑ امریکی ڈالر لگائی گئی تھی۔
الظواہری کو 13 جنوری 2006 کو پاکستانی سرحد کے قریب افغانستان کی حدود میں امریکی میزائل حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ اس حملے میں القاعدہ کے چار ارکان ہلاک ہوئے تاہم الظواہری بچ گئے تھے۔
حملے کے تین ہفتے بعد انھوں نے ایک ویڈیو کے ذریعے امریکی صدر جارج ڈبلیو بش کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ’نہ تو وہ اور نہ ہی کرّہ ارض پر موجود کوئی اور طاقت انھیں جان سے مار سکتی ہے۔‘
8 جون 2011 کو اپنی ویب سائٹ پر جاری ایک پیغام میں الظواہری نے کہا کہ ’اسامہ بن لادن مرنے کے بعد بھی امریکہ کو خوفزدہ کرتے رہیں گے۔‘
اسامہ بن لادن کی ہلاکت کے بعد القاعدہ کی جنرل کمانڈ کی طرف سے جاری ہوئے ایک بیان کے مطابق اسامہ بن لادن کے نائب ایمن الظواہری کو تنظیم کا نیا سربراہ مقرر کیا گیا۔
الظواہری نے پہلے تو خاندانی روایت کے مطابق قاہرہ ہی میں ایک طبی کلینک کھولا لیکن جلد ہی وہ ایک قدامت پرست اسلامی گروپ کی جانب متوجہ ہو گئے۔ یہ گروپ مصر کی حکومت کا خاتمہ چاہتا تھا۔
سنہ 1973 میں اسلامک جہاد کے قیام کے بعد وہ اس میں شامل ہو گئے۔
سنہ 1981 میں مصری صدر انور سادات کے فوجی پریڈ کے دوران قتل کے بعد ایمن الظواہری سمیت تنظیم کے سینکڑوں مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا۔
